التركة الذاتية لا الغريبة مثلا كون ربعها للزوج هذا عارض ذاتي لها لم يلحق التركة بوصف كونها تركة بواسطة شيء، بخلاف ما يعرض لها من حرق مثلا فهذا عارض غريب لحقها بواسطة النار فلا يبحث فيه عن ذلك وتفصيل ذلك في المنطق معلوم. (شرح خليل، ١٤/٢١٠)
الحاوي في الطب (لأبي بكر محمد بن زكريا الرازي، ٣١٣ﻫ)
١٧- قال: ويحتاج الطبيب أن يعرف الهندسة والنجوم وإلا لم يعرف تقسيم الأزمنة وحال البلدان، ويحتاج أن يعرف المنطق وإلا لم يحسن تقسيم أجناس الأمراض إلى أنواعها ألف ي، ولا يعرف صواب من أصاب، وخطأ من أخطأ ممن دبر تدبيرين مختلفين ويحتاج أن يعرف تقدمة المعرفة ويحتاج أن يكون متكلماً حسن العبارة. (الحاوي في الطب، ٧/٤٢٦)
العطايا النبوية في الفتاوى الرضوية (للإمام أحمد رضا خان، المتوفى:١٣٤٠ﻫ)
١٨- حدث ونجس کی نسبتوں میں مصنف کی تحقیق منیر:
فاقول: حدث ونجس کو اگر مطلق رکھیں تو اُن میں نسبت عموم وخصوص من وجہ ہے، نوم حدث ہے اورنجس نہیں، خمر نجس ہے اور حدث نہیں، دم ِفصد حدث ونجس دونوں ہے۔ اور خارج ازبدن ِمکلف کی قید لگائیں، لا من بدن الانسان فينتقض طردا وعکسا بخارج الجن والصبی (خارج از بدن انسان نہ کہیں کہ جن اور بچہ سے خارج ہونے والی ہر چیز کی وجہ سے کلیہ نہ جامع رہ جائے نہ مانع ، یعنی یہ لازم آئے کہ خارج از جن کا یہ حکم نہیں اور خارج از طفل کا بھی یہ حکم ہے حالاں کہ حکم میں جن شامل ہے اور بچہ شامل نہیں۔ ت)اور اس کے ساتھ نجس سے نجس بالخروج لیں یعنی وہ چیز کہ بوجہ خروج اسے حکمِ نجاست دیا جائے اگرچہ اس سے پہلے اسے نجس نہ کہا جاتا (جیسے خون وغیرہ فضلات کا یہی حال ہے۔پیشاب اگر پیش از خروج ناپاک ہو تو اس کی حاجت میں نماز باطل ہو۔اور خون تو ہر وقت رگوں میں ساری ہے پھر نماز کیونکر ہوسکے) تو ان دو قیدوں کے ساتھ حدث عام مطلقا ہے یعنی بدنِ مکلف سے باہر آنے والا نجس بالخروج حدث ہے اور ہر حدث نجس بالخروج نہیں ۔جیسے: ریح؛ فإن عينها طاهرة علی الصحيح. (اس لئے کہ خود ریح ، بر قولِ صحیح ، پاک ہے ۔) قضیہ مذکورہ میں علمائے کرام نے یہی صورت مرادلی ہے ولہٰذا عکس کلی نہ مانا، اور اگر قیود مذکورہ کے ساتھ رطوبات کی تخصیص کرلیں تو نسبت تساوی ہے، ہر رطوبت کہ بدن مکّلف سے باہر آئے اگر نجس بالخروج ہے ضرور حدث